Thursday, 28 May 2020

سوانح حیات حافظ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ: محمد اکمل انصاری

سوانح حیات:حافظ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ




 

سوانح حیات: حافظ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ
بقلم: محمد اکمل انصاری
حسب و نسب

 حافظ نظام الدین بن محمد رمضان علی بن محمد بہور میاں بن معصوم علی۔محمد رمضان علی کے کے کل پانچ بیٹے تھے،حافظ نظام الدین حافظ فاروق محمد عبدالمنان عبدالحنان اور عبد الدیان۔

   حافظ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش تقریبا انیس سو بائیس میں ہوئی ہوئی۔ تعلیم: مکمل حفظ قرآن کے علاوہ اردو عربی فارسی زبان میں پوری مہارت تھی۔ ہندی کی تعلیم  تقریبا ۴۵ سال کی عمر میں حاصل کی۔ ان کی شادی انیس سو اڑتالیس میں ہوئی ۔
       ان سے آٹھ اولاد ہوئی جو حسب ذیل ہیں: محمد اجمل ،محمد اکمل، محمد افضل، محمد انعام الحق اور جاوید احسن لڑکے ہیں۔نیلوفر مہ جبیں، بدر سیمی اور شکیلہ رفعت پروین لڑکیاں ہیں۔دو سال کی عمر میں بچپن میں ہی محمد افضل کا انتقال ہوگیا۔جس کی وجہ سے والد صاحب کو بہت صدمہ پہنچا اور خاص کر والدہ محترمہ بہت زیادہ غمگین رہنے لگیں، تو والد محترم نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ ہمیں جلد ہی ایک اولاد عنایت فرمائے تا کہ ہم دونوں کے دل کی تسکین ہو۔ پھر اللہ نے ان کو ایک صالح اولاد عطا فرمایا۔

    میرے والد بزرگوار کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ اولاد اللہ کا انعام ہے تو انہوں نے اپنے بچے کا نام محمد انعام الحق رکھا ۔واقعتا ان کے چاروں لڑکوں میں انعام الحق کا نام روشن ہوا، جن کی زندگی اپنے والد کے طرز سنت کے مطابق چل رہی ہے اور ان کا ایک بھی کام، کارنامہ اور ردعمل کا اصول کے برعکس نہیں ہے ،یعنی یہ کہنا مناسب ہوگا کہ انعام الحق کی زندگی مکمل ضابطہ حیات ہے۔  کہابھی گیا  ہے ’’وردی سن آف وردی فادر‘‘۔



بچپن اور تعلیم و تربیت

     والد محترم کا بچپن بڑے ہی لاڈوپیار میں گزرا کیونکہ پہلی اولاد تھے اور ان کے والد صاحب رمضان علی کلکتہ کے شام بازار میں دکانداری کرتے تھے، اس لئے ان کو کسی طرح کی لوازات  میں کمی نہیں تھی۔
     پھر کچھ زمانہ گزرا کہ کلکتہ کے اندر دنگا ہوگیا جو ہندو اور مسلمان کی لڑائی تھی، دکان لٹ گئی ان کے والد محترم جان بچا کر گاؤں آگئے اور مزدوری کرنے لگے ۔زمانہ گزرتا گیا پھر کیا تھا انیس سو چونتیس ؁۱۹۳۴میں زلزلہ کے بعد قحط سالی بھی ہوئی۔ معاشرے میں مجموعی طور پر غربت چھا گئی جس سے میرا خاندان بھی متاثر ہوا۔  چاہے جو ہو تعلیم جاری رہی اور ایک بڑے ہی پروقار ، پائے کہ بزرگ حافظ معین الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی سرپرستی میں جاری رہی۔ اپنے استاد محترم کی تربیت اور تعلیم کا ایسا اثر رہا کہ ان کی پوری زندگی سنت پر گامزن رہی۔

     اتفاق سے ان دنوں ہی مظفرہ کی سرزمین پر ایک مدرسہ قائم ہوا جو استاد محترم کے نام پر ہی رکھا گیا یعنی ’’مدرسہ معین الاسلام‘‘، بابا نے حفظ قرآن ان سے ہی مکمل کیا۔ پھر استاذمحترم کی سرکاری نوکری ہوگئی تو وہ اپنے گاؤں تشریف لے گئے، جو یہاں سے ۲۵ کلومیٹر پر ہے اور عالم چک کہلاتا ہے۔ پھر میرے والد صاحب حافظ محمد نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کچھ زمانے تک ان کے ہی ساتھ رہے۔
     واقعتا استاذ محترم کی تعلیم و تربیت میں ایسا اثر تھا جو دنیا کی جاہ و مال اور بے جا خواہشات کو ختم کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرا دیتا تھا۔ علم کی خوشبو تو پہلے زمانے کی تعلیم میں تھی اب تو علم صرف فن رہ گیا ہے ۔
تبھی تو مولانا روم کہتے ہیں کہ:_
علم را برتن زنی ماری بود
علم گر بر دل زنی یاری بود
ترجمہ: ’’علم اگر تن پروری مال و جاہ شان و شوکت کے لیے حاصل کی جاتی ہے تو وہ علم سانپ ہے جو صاحب علم کو ڈس لیتی ہے اور علم اگر اللہ کی دلجوئی، رضاجوئی اور خوشنودی کے لئے حاصل کی جاتی ہے تو خدا کے قرب کا ذریعہ ہے‘‘۔



میدان عمل
     بہرحال والد صاحب تعلیم سے ظاہری فراغت کے بعد معاش کی تلاش میں رہے۔انہوں نے باہر جا کر بھی پڑھائی کی۔ شادی کے بعد گاؤں میں مزدوری کرنے لگے، کیونکہ بیڑی بنانا جانتے تھے۔ اپنے گاؤں میں ان کے علاوہ کوئ معلم نہ تھا، جس کی وجہ سے مسجد کی ذمہ داری بھی سنبھالنی پڑی ، البتہ ذمہ داری سنبھالنے کی کوئی  اجرت نہیں تھی اور نہ ہی اس کا تقاضا تھا۔
   پھر بیڑی کمپنی سے جڑ گئے، اب خود مزدوری کرتے تھے اور کرواتے بھی تھے۔ مسجد کی نگرانی کی ذمہ داری تھی جب تک تراویح سنانے کی صلاحیت رہی کسی دوسرے حافظ نے نہیں سنایا پھر ان کی اجازت سے دوسرے حافظ سنانے لگے۔ ان کا حافظہ بڑا مضبوط تھا، ایک بار تو ایسا ہوا ہوا کہ پورے قرآن شریف میں صرف ’’قل ھو اللہ احد‘‘ میں بھولے۔



انداز بیاں
    گاؤں میں میلاد شریف کا خوب چلن اور رواج تھا، اب بھی بہت حد تک باقی ہے۔ بابا کی تقریر بہت ہی صاف ستھری اور واضح ہوتی تھی۔ جو کچھ بولتے ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے، نہ بہت زور کی آواز تھی اور نہ بہت ہی پست۔  عموما اپنی باتوں کو دو بار بولتے تھے۔ اپنی باتوں کو زیادہ طویل نہ کرتے تھے اور نہ ہی جلد ختم کرتےتھے، محفل میں زیادہ تر لوگ غور سے سنتے اور خاموشی چھائی رہتی تھی۔ یوں تو اپنی تقریر میں مختلف موضوعات پر گفتگو کیا کرتے تھے لیکن ان کی کوئی بھی تقریر ایسی نہ ہوتی تھی جس میں اللہ پر یقین رسول سے محبت اور خود انسان کی اپنی اصلاح کی بات نہ ہو۔ اس شعر سے انہیں بہت تقویت ملتی تھی :-
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

     کبھی کبھی خطاب کے دوران روتے بھی تھے، سامعین کے آنکھیں بھی نم ہو جاتی تھیں۔ پھر بولتے تھے کہ رونا نجات کا راستہ ہے۔ کہتے تھے کہ رونا نہ آئے تو رونے کی طرح اپنا چہرہ بنا لو، فرماتے کہ ایسا کرو گے تو اللہ کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہو گی۔
واقعی میں ان کی یاد آتی ہے تو غالب کا شعر یاد آتا ہے:-
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

صرف بھیس بنالینے سے دنیا والے کرم کرنے لگتے ہیں تو اس مالک حقیقی کے کرم کا کیا کہنا۔اپنی تقریر کے دوران نوجوانوں کی بڑی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ایسا نہیں کہ صرف نماز،روزہ،زکوۃ اورحج وغیرہ کے بارے میں ہی سمجھاتے تھے، بلکہ دنیا کے کام کاج،محنت و مشقت کے بارے میں بھی سمجھاتے تھے، وہ کہتے تھے کہ: نوجوانوں جب تم دنیا کا کام کرنے لگو تو اتنی لگن اور محنت سے کرو کہ تمہاری ریڑھ کی ہڈیاں چڑ چڑا اٹھیں، اور تم اپنے دلوں میں ایسا گمان کرو کہ ہم ہزار برس زندہ رہیں گے، اور جب تم عبادت کرنے لگو تو یہ سمجھو کہ یہ عبادت ہماری زندگی کی آخری عبادت ہے۔
اور بڑی گہرائی میں ڈوب کر اشعار پڑھتے تھے:

دین و دنیا یکجا کر کے راز ترقی سمجھائے
یہ بھی رحمت وہ بھی رحمت صلی اللہ علیہوسلم

      کہتے تھے دنیا حقیر ضرور ہے لیکن ہے کام کی چیز جو تمہیں اچھے راستے اختیار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔والد محترم سامعین سے توبہ کرنے کی بڑی تلقین کرتے تھے، کہتے تھے گناہ ہو جائے تو توبہ کر لو پھر گناہ ہوجائے پھر توبہ کرلو انسان سے غلطی ہوتی ہے، چاہیے کہ توبہ کرتا رہے اور اللہ سے امید رکھے کہ اللہ معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے۔ ان کا اس طرح کا اشارہ مولانا روم کے التجا سے ملتا جلتا ہے، مولانا روم کہتے ہیں:-
اے عظیم از ما گناہان عظیم
تو تو انی عفو کردن درحریم
     ترجمہ: ’’اے اللہ! مانا کہ میرا گناہ بڑا ہے لیکن تو معافی کو پسند کرتا ہے، مجھے ایسی امید ہے کہ اگر ہم خانہ کعبہ کے اندر بھی گناہ کریں گے تو آپ معاف فرما دیں گے۔



بحیثیت سرپنچ
     اس طرح وقت گزرتا گیا، والد صاحب کی ایمانداری، دیانتداری خدمت خلق،اپنے دلوں میں دوسروں کی بھلائی کے لئے جذبہ، اچھی سوچ، نیک مشورہ اور ان کی راحت کے لئے خود تکلیف برداشت کرنا یہ ساری چیزیں ان کی زندگی کا وظیفہ رہیں۔
    تحفے میں ان کو عزت ملی، اچھی شہرت ملی۔ گاؤں اور اطراف کے لوگ ان کے نیک مشورے سے فائدہ اٹھانے لگے۔ پھر کیا تھا الیکشن کا وقت آیا تو لوگوں نے ان کو سرپنچ چن لیا، اب سماجی اور قانونی اعتبار سے ان کی کارگزاری سے عوام فائدہ اٹھانے لگے۔ باربار چناؤ کا وقت آیا اور والد صاحب سرپنچ کے عہدے پر فائز رہے۔ تقریبا 35 سال اس عہدے پر رہے۔ عوام کافی خوش رہی، قابل تعریف یا نقطہ کی بات یہ رہی کہ پورے 35 سال کے ایام میں کوئی بھی مقدمہ باہر نہیں گیا، ایک دو مقدمہ باہر گیا بھی تو اسے حاکم نے لوٹا دیا۔
      جشن آزادی یا کوئی عام بھاشن میں بھی ان کی تقریر سے لوگ خوش ہوتے تھے، یہ وعدے نہیں کرتے تھے البتہ قرآنی اصول کے دائرے میں بات کرتے تھے۔ عام لوگوں میں برادران وطن کو کیا معلوم کہ یہ قرآنی اصول کی بات ہے، ان کو تو اچھا لگا اور خوش ہوئے۔



آدابِ اختلاف  

      والد محترم نے کبھی غیر قوم کو حقیر نظر سے نہیں دیکھا، ایک بار گاؤں میں فرقہ وارانہ فساد ہونے والا تھا، مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہوگیا، لوگ بابا کے پاس آنے لگے، یہ تسلی دیتے رہے، ورد بتاتے رہے، پھر لوگوں کو مسجد میں جمع کرکے خطاب کیا اور سمجھایا کہ دیکھو تم انھیں مارنے نہیں جاؤ گے، اگر وہ تمہارے پاس لڑنے آئیں تو تمہیں مقابلہ کرنا ہے، لڑنے اور مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی ریہل سل کے طور پر کرکے بتایا۔ اللہ کا خاص کرم رہا کہ کوئی کوئی غلط واقعہ پیش نہیں آیا۔

       دیوبندی اور بریلوی کا مسئلہ والد صاحب کے زمانہ میں بھی تھا۔ حافظ صاحب(والدمحترم) دیوبندی تھے یا بریلوی لوگ نہ ان کی حیات میں  سمجھ سکے نہ بعد الممات۔ آج بھی بریلوی عقیدہ کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ان کو مزار شریف پر دیکھا تھا، تو دوسرے  دیوبندی حضرات کہتے ہیں کہ ہم نے تو کبھی چادر ڈالتے نہیں دیکھا، پھر ایک کہتے ہیں کہ ہم نے ان کو محرم میں اکھاڑے میں لاٹھی کھیلتے دیکھا، تو دوسرے کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی تعزیہ اٹھاتے نہیں دیکھا، گویا کہ آج بھی یہ بحث کا موضوع ہے کہ وہ کیا تھے! البتہ فاتحہ کرنے پر متفق رائے ہے کہ کوئی اگر آگے میں مٹھائی رکھ دے تو بھی کوئی حرج نہیں اور نہ رکھے تو بھی کوئی حرج نہیں۔



مختلف مشغولیات اور یاد الہی

       والد محترم اپنے وقت میں فٹبال کھیلنے سے دلچسپی رکھتے تھے، پھر اخیر وقت میں دوبار ٹینس بال کرکٹ کھیل کا افتتاح کیا۔زندگی کے مختلف مرحلے میں مختلف کام انجام دیے۔ اپنے ایام زندگی میں مزدوری کی، امامت کا فریضہ انجام دیا، مدرسے میں وقت دیا، کھیتی کی، سرپنچ کے عہدے پر رہ کر قوم کی خدمت کرتے رہے،دوکانداری کرنے کا موقع بھی ملا ،چاہے جیسا مشغلہ ہو اور جیسی مشغولیت ہو یاد الہی سے غافل نہ رہے اور نہ شریعت سے دوری رہی، ہمیشہ دینی فکر کو شامل حال رکھا۔
       اللہ نے ان کے کارنامے اور رد عمل اور اخلاص کی نیت کا ثمرہ بھی عطا کیا، جو آج اجاگر ہے، وہ یہ ہے کہ ان کی اولاد میں فی الوقت پوتوں میں بارہ کی تعداد میں عالم اور حافظ ہیں اور پوتیوں میں آٹھ عالمہ ہیں جس میں ایک حافظہ بھی ہے۔ یعنی یہ کہنا کوئی بے جا نہ ہوگا کہ:-
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے

اللہ جس کو جس چیز سے نواز دے ان کی مرضی ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:-
بوئے آں دلبر چوپراں می شور
ایں زبان ھا جملہ حیراں می شود

     ترجمہ:’’اللہ جب اپنے نیک بندوں پر اپنی رحمت کا نزول کرتے ہیں، تو اسے دنیا کی کوئی زبان کوئی لغت ظاہر کرنے سے قاصر رہتی ہے‘‘۔

مردان خدا خدا نباشد
لیکن از خدا جدا نباشد
     ترجمہ:’’اللہ کے خاص بندے خدا نہیں ہوتے لیکن وہ خدا سے الگ نہیں ہوتے‘‘۔

      ہمارے بابا کو آخری وقت میں بہت افسوس لگا رہا کہ وہ مرید نہیں ہوئے، جب کہ ان کو پیر و بزرگ سے کافی لگاؤ رہا اور اولیاء اللہ کے مزارات سے بھی تعلق رہا۔ بچوں نے ان کو امید دلائ کہ جب آپ تندرست ہو جائیں گے تو ہم بیعت کے لئے لے جائیں گے۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ والد صاحب اس چیز سے واقف تھے کے پیر آسمان کی سیڑھی ہوتے ہیں جو بندوں کا رشتہ اللہ سے جوڑ دیتے ہیں۔
مولانا روم فرماتے ہیں:-
پیر باشد مردان آسمان
تیر پیغام از کہ گردد از کمان
     ترجمہ:’’مرشد تو آسمان کی سیڑھی ہوتے ہیں جو بندوں کو اللہ سے جوڑ دیتے ہیں، جس طرح تیر کمان کے بغیر نہیں اڑتا زمین پر رکھا رہ جاتا ہے‘‘۔

ایک جگہ مولانا روم فرماتے ہیں کہ:-
ہر والی را نوح کشتی باں شناس
صحبت ایں خلق را طوفاں شناس
    ترجمہ:’’اللہ کے ولی نوح کی کشتی کے مانند ہیں، جو اس پرسوار ہواطوفان سے محفوظ رہا‘‘۔



اوصاف حمیدہ
       اللہ نے میرے والد صاحب میں ایسی صلاحیت دی تھی کہ جب کسی جھگڑے کا انصاف کرتے تو دونوں فریق خوش ہوجاتے تھے، جو آج کل کے فیصلے میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔والد محترم کی خوراک کم تھی، وہ بہت کھانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ اللہ نے ان کو اچھی تندرستی دی تھی، فرماتے تھے کہ "قلیل الغذاء طویل العمر"۔ واقع میں لمبی عمر پائے۔والد محترم اپنی اولاد کا بہت اکرام کرتے تھے۔ ان کے تمام لڑکے یہی سوچتے تھے کہ ابا ہم کو زیادہ مانتے ہیں۔



وراثت میں ایمانداری

     خوبی کی بات یہ ہوئی کہ اپنی زندگی ہی میں ترکہ تقسیم کر گئے اور وراثت میں ایمانداری چھوڑ گئے۔والد صاحب کسی کو غیر نہیں سمجھتے تھے ایک بار کی بات ہے کہ پڑوس کے ایک آدمی نے  کسی خلش کی وجہ سے سے ان کو مقدمہ میں شامل کرلیا، ایک بار تو عدالت جانا پڑا، بعد میں نہیں گئے اور اپنی حاضری اسی کے ہاتھ سونپ دی اور وہ کام کرتا تھا۔ یہ ان کے اخلاق کا نتیجہ تھا جو مخالف ہونے کے باوجود اپنے مدعی علیہ کا کام کرتےتھے۔ اسی مقدمے کو لے کر ہم نے والد صاحب سے کہا کہ آپ نے تو کچھ نہین بگاڑا اور اس نے آپ کے ساتھ غلط کیا، ہم ان کا بدلہ لیں گے۔ والد صاحب بولے نہیں بیٹا یہ دنیا ہے، یہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔



صلہ رحمی

     صلہ رحمی کے حامی تھے، مخفی سوچ سے اجتناب کرتے تھے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ واقعی پنچایت کے کچھ دور جانا تھا، ایک شخص سائیکل پر بیٹھا کر لے گیا، راستے میں دونوں گڑ پڑے ان کے پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کچھ لوگوں نے آکر کہا آپ اس پر کیس کیجئے اور معاوضہ لیجئے، والد محترم نے کہا اسی کی کوئی غلطی نہیں، جو ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، بغیر اللہ کی مرضی سے درخت کا ایک پتہ بھی نہیں ہلتا ہے۔ واقعی میں والد محترم کا ایسا خیال مولانا روم کے اس شعر سے ملتا ہے:
یقیں در عقل ہر دانندہ است
ایں کہ باجنبندہ جنبانندہ است
     ترجمہ:’’عقل والے اب اس بات کو مانتے ہیں کہ کوئی بھی چیز خود بخود حرکت نہیں کرتی، لہذا ہر متحرک کا کوئی محرک ہوتا ہے‘‘۔



مزاح
      والد صاحب کا ہر زمانے میں انداز بیان مختلف رہا، کبھی کوئی بات یا کوئ فیصلہ درپیش ہوتا تھا تو اس کا جواب مزاحیہ انداز میں بھی دیتے تھے، پھر بھی شریعت کے اعتبار سے یا دینی نقطہ نظر سے ٹھیک ہی ہوتی تھی۔
   ایک بار کی بات ہے بیڑی گودام کا زمانہ تھا، کاریگر ایک جگہ بیٹھ کر ستر اسی  ۷۰-۸۰ کی تعداد میں کام کرتے تھے۔ ان میں سے چار لڑکے والد صاحب کے پاس آئے اور شکایت کی کہ:’’حافظ صاحب وہ جو اکرم ہے، کہتا ہے کہ اللہ نہیں ہے!، اگر ہے تو ہم کو بتلاؤ! میری اس سے حجت بھی ہو گئ، پھر بھی وہ اپنی ضد پر ہے، تو ہم کیا کریں‘‘؟ 
       والد صاحب نے کہا، تم جاؤ اور اس کے گال میں زور سے چونٹی کاٹنا اور پوچھنا کے درد ہوتا ہے، وہ کہے گا کہ درد ہوتا ہے، تو کہنا کہ کیا درد نظر آتا ہے، تو وہ ضرور کہے گا کہ درد بھی کہیں نظر آتا ہے، بس تم کہہ دینا کہ وہی جو تمہیں نظر نہیں آتا وہ اللہ ہے۔ لہذا ایسا ہی ہوا، اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بات تو مزاحیہ انداز کی تھی لیکن ایمان بالغیب کا ذکر بھی ہوگیا۔ ایک جگہ مولانا روم کا ارشاد ایمان بالغیب کے بارے میں اس طرح سے ہے:
یومنون بالغیب می باہر مرا
زبان بستم روزن فانی سرا

     ترجمہ:’’کہ اے ایمان والے ہم تم سے ایمان بالغیب چاہتے ہیں، دنیا بناتے وقت ہم  نے کوئی ایسا دریچہ یا سرا نہیں چھوڑا جس سے تم مجھے دیکھ سکو‘‘۔
     آج دنیا کے سارے علماءدین مولانا روم کے اشعار سے متفق ہیں، انھوں نے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار لکھے پھر بھی مثنوی شریف پوری نہیں ہوئی تو ان کو لکھنا بند کرنا پڑا۔ اخیر میں مولانا فرماتے ہیں:
چو فتاد از روزن دل آفتاب
ختم شد اللہ اعلم بالصواب
’’کہ جو آفتاب نور اس دل کو نصیب تھا وہ آنا بند ہوگیا، یہ اللہ کی مرضی ہے میں بے علم ہوں‘‘۔


     والد محترم کی کارگزاری اور بیان سے ان کی ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔ واقعات تو بہت سارے ہوں گے جو ہمیں معلوم نہیں ہیں۔ یہ تو کلام رضا فیضی نے جو انعام الحق کے بڑے صاحب زا دے ہیں، ہمیں کچھ لکھنے کو کہا ،جو یاد آیا لکھا، افسوس اگر ہماری عقل ناقص نہیں ہوتی تو حیات ہی میں قلم بند کرتا۔



راہ اعتدال
      والد محترم اپنے ہر کام میں درمیانی طریقہ اختیار فرماتے تھے، چاہے وہ کھانے کا معاملہ ہو، پوشاک کا ہو ،یا شادی بیاہ کا معاملہ ہو،کسی بھی کام کا انجام اپنی حیثیت سے اوپر نہ ہونے دیتے اور نہ کمتری کی طرف مائل ہوتے۔ کہتے تھے کہ کفالت اچھی چیز ہے، بخالت بری چیز ہے۔لیکن افسوس کے آج کے بچے اپنے بزرگوں کے اعمال سے نصیحت اخذ نہیں کرتے اور اپنی نفس کی پیروی کرتے ہیں، ہر لوازمات سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ کاش کہ یہ نوجوان حضرات اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے، تو ان کا حال درست ہوجاتا اور جب حال درست ہوتا تو ان کا ماضی اور مستقبل بھی ٹھیک ہوجاتا، کیونکہ ان دونوں کو حال ہی سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔

       والد صاحب کو چائے کی عادت تھی ہر روز باسی روٹی دو لقمہ کھا کر چائے پیتے تھے۔ صفائی ان کو زیادہ پسند تھی ذرا بھی فرق پڑتا تھا تو بغیر شکایت کے ترک فرما دیتے تھے۔ پوشاک کے معاملے میں جب بھی خود سے بنواتے تو کھادی کا کرتا اور پائجامہ بنواتے پھر بعد میں جو ملا استعمال کیا۔



معاشرت
      رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرتے تھے،ہمیں یاد ہے کہ میری شادی میں دلہن کی رخصتی کا معاملہ دریافت کیا، تو بولے جب آپ کی خواہش ہو لے جائیے اور جب میری خواہش ہوگی ہم لے آئیں گے، نا آپ رو کیں اور نہ ہم روکیں گے، لہذا وہاں پر موجود لوگوں کو مشورہ بہت پسند آیا۔والد صاحب کے ذہن میں ہمیشہ بھلائی کا معاملہ رہا ایک بار آپ نے لڑکوں کے درمیان فرمایا دیکھو عورتوں میں دس طرح کی خرابی ہوتی ہے، اس میں اگر نو خرابی ہے اور ایک اچھائی ہے تو بھی عورت کو رکھنا چاہیے، پھر بولے ایک ہی اچھائی کیوں ہوگی؟خوبیاں رہتی ہیں، ہم اس کا صحیح معنی میں ادراک نہیں کر پاتے، پھر فرمایا جیسے وہ بچہ دیتی ہے، دودھ دیتی ہے، بات مانتی ہے، اللہ کا نام لیتی ہے، غرض کہ اگر اس طرح شمار کرو تو بہت سی خوبیاں نکل آئیں گی، اس لیے عورتوں کے ساتھ  ہمیشہ بھلائی کا معاملہ کرو۔ ارے کم سے کم جب بچہ روتا ہے تو دوڑ کے تو آتی ہے اور اپنے بچے کو گلے لگاتی ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ والد محترم کی نظر کہاں کہاں جاتی تھی، ہمیں تو مولانا روم کا یہ شعر یاد آتا ہے:
طفل را چوپا نباشد مادرش
آید و دیزد وضیفہ برسرش
’’اے اللہ بچے کو پسند نہیں جو ماں کے پاس جائے تو نے ہی ماں کے دل میں ڈال دیا جو رونے پر دوڑتی آتی ہے اور کلیجے سے لگا لیتی ہے‘‘۔



خلق اللہ سے محبت
     والد صاحب کا جانوروں کے ساتھ محبت دیکھنے کا موقع ملا، جب وہ کھیتی کرتے تھے تو گائے پالتے تھے،کچھ زمانہ کے بعد گائے بوڑھی ہو کر بیمار ہوگئی، قصاب آیا فروخت کی بات کی، یہ بات والد صاحب کو پسند نہیں آئی، کہنے لگے اللہ کی جو مرضی ہوگی ہوگا، گائےفروخت نہیں ہوگی۔ وہ بار بار آتے اورپڑھ کر پھونکتے تھے۔ مرضی اللہ کی، گائے نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور رخصت ہوگئ۔  والد صاحب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے دیکھا گیا جیسے لگا کہ کوئی انسان گزر گیا۔
آکرقضا باہوش کو بےہوش کر گئی
ہنگامۂ     حیات     کو خاموش کر گئی
    
      بہت سارے واقعات ہیں جیسے یہ آج کل کا مہینہ اگست کا ہے برسات شباب پر ہے لوگ پانی سے پریشان ہیں۔ دروازے پر پانی،صحن میں پانی، گھر میں پانی، یہ کوئی نئی بات نہیں  ہے، پچھلے زمانے میں بھی یہی بات رہی۔ والد محترم ایسا چولہا تیار رکھتے تھے جسے چوکی پر رکھ کر کھانا بنایا جاسکے۔ اور اس طرح انھوں نے اپنی ضرورت کو پورا کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور پریشانی سے نہیں گھبرائے۔کہتے تھے کہ پانی اللہ کی رحمت ہے جہاں ضرورت ہوتی ہے وہیں اللہ پانی بھیجتے ہیں، ان کو خوب معلوم ہے کہ زمین کے کس حصے میں پہونچانا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:
چوں زمیں را پانہ باشد جودتو
ابرا را داند  بسوئے رود تو
     ترجمہ:’’اے اللہ تو نے زمین کو پیر تو نہیں دیا جو اپنی پیاس بجھانے پانی کے قریب جائے گی، تو ہی بادل کو مسخر کر کے پیاسے زمین پر پانی برساتاہے‘‘۔



تکلیف پر صبر
    اپنی تکالیف کا ظاہر نہ کرنا بھی والد محترم کی خصوصیات میں شامل تھا، اخیر وقت میں جب بیمار پڑے تو ڈاکٹر کے یہاں جانچ وغیرہ ہوا، رپورٹ والے سے پوچھا گیا کہ رپورٹ میں کیا آیا ؟ بولا یہی رپورٹ آیا کہ یہ بڑے مہمان ہیں، پوچھا گیا وہ کیسے؟ تو کہا کہ پہلے تو ان کا بلڈ گروپ "او" ہے جو مہانتا کا پرتیک ہے،  مگر بہت نادر ہے۔ دوسرا  دونوں پھیپھرا پوری طرح ختم ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود بھی پوچھے جانے پر مسکرا کر کہتے کہ ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ یہ برداشت کی حد تھی۔
واقعتا والد صاحب اپنے مقدر پر رضامند رہے یہ صبر و شکر کی بہت بڑی علامت ہے۔



سنجیدگی و متانت

      والد صاحب مذاق کا جواب مذاق سے نہیں دیتے تھے، ایک بار صحتمندی کے زمانہ میں ان کے سسرال اکہا گاؤں سے ملنے جلنے والا ایک ہندو آیا اور ملاقات کے دوران ہی بھونڈا مذاق کر بیٹھا، والد صاحب بات بدل کر خیریت دریافت کرنے لگے اور بیٹھنے کو کہا، پھر وہ آدمی اچھی حالت میں بات کرنے لگا اور جو کچھ بھونڈی باتوں کا ذکر گزرا تو ان کا کوئی چرچا نہیں رہا، تو مزید کوئی گناہ بھی نہیں ہوا۔ اپنے نفس کے ذریعے ہونے والے گناہ سے بچنے کا یہ بھی طریقہ بزرگوں کا رہا ہے، تبھی تو مولاناروم فرماتے ہیں:
نفس فرعون است ہیں سرش مکن
تانہ  کوشش   آید آں کفر کہن
     ترجمہ:’’نفس فرعون ہے، اس سے بچو، یہ پرانے گناہ کی یاد دلاکر کفر کی طرف مائل کرتاہے، یعنی دوبارہ گناہ میں مبتلا کرتا ہے‘‘۔
      جیسا کہ ایک بار موسی علیہ السلام فرعون کے پاس اللہ کے حکم سے گئے اور حق کی دعوت دی، تو فرعون کا دل تھوڑا پگھلا، اس نے کہا کہ ہم مشورہ کریں گے، فرعون نے اپنے وزیروں سے دعوت حق کا تذکرہ کیا، تو ہامان جو وزیروں کا سردار تھا بولا کہ میں یہ دیکھنا نہیں چاہتا کہ آسمان زمین ہو جائے، فرعون نے اپنی تعریف سنی تو اس کا نفس پھول گیا اور پھر پرانے گناہ میں غرق ہی رہا، یعنی کفر میں مبتلا ہوگیا۔ واقعتا سامنے تعریف انسان کے حق میں بہت نقصان دہ ہوتی ہے، ساری تعریف تو اللہ رب العزت کے لئے ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:
جانور فربہ شود از ناؤ نوش
آدمی فربہ شود از راہ گوش

ترجمہ:’’جانور بھوسہ کھانے سے موٹا ہوتا ہے اور آدمی اپنی تعریف کان سے سننے کے بعد اس کا نفس پھول جاتا ہے یعنی وہ موٹا ہو جاتا ہے‘‘۔

      میرے ابا حضور ایک بار بڑے مجمع میں فرما رہے تھے کہ غیبت اور بد نظری بہت بری چیز ہے،اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔ اس سے لوگوں کو بچنا چاہیے، اور اس کے بچنے میں کوئی روپیہ پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے، لوگ یہ گناہ بڑی آسانی سے انجام دیتے ہیں، اس کی لت ہوتی ہے جیسے کھانے کے علاوہ کچھ کھانے کی عادت ہوتی ہے، پینے کے علاوہ کچھ پینے کی عادت ہوتی ہے،جو مناسب نہیں ہوتا، خرابی بھی ہوتی ہے اور گناہ بھی۔

     واضح رہے کہ اس کے متعلق ہم نے خود غیبت کا واقعہ کتابوں میں پڑھا۔  لکھا تھا کہ ایک مرید اپنے مرشد سے عرض کرتا ہے کہ: حضرت فلاں شخص کل آپ کی شکایت کر رہا تھا، بہت زیادہ غیبت کی،تو حضرت نے مٹھائی نکال کر دی اور کہاں جاؤں اس کو دے کر چلے آنا۔ مرید نے کہا کہ حضرت اس نے غیبت کی اور آپ مٹھائی بھجوا رہے ہیں، حضرت نے کہا کل رات جو اس نے غیبت کی تو اللہ تعالی نے اس کے اچھے اعمال میرے نام اور میرے برے اعمال اس کے نام منتقل فرما دیے۔ وہ مرید سن کر بہت نادم ہوا چوں کہ غیبت پہنچانے والا تو خود تھا ،یہ تو غیبت سے متعلق بات تھی، اب بد نظری کے متعلق عرض ہے مولانا روم کی طرف سے، فرماتے ہیں:-
گرز صورت بگذری اے دوستاں
گلستاں است گلستاں است گلستاں
ترجمہ:’’اے دنیا والو اگر تم صورت پرستی کے عذاب سے نجات پاجاؤ تو تمہیں اللہ کے قرب کا باغ ہی باغ نظر آئے گا‘‘۔ کہنے کا غرض یہ ہے کہ والد محترم نے غیبت اور بد نظری کی بات چند لفظوں میں بیان کر دی، لیکن اس کی کڑی بزرگوں کے تفسیری بیان سے ملتی ہے۔

      یہ سب جتنی بھی باتیں عرض کی جارہی ہیں وہ سب یاد کی بنیاد پر ہیں۔ یاداشت جہاں تک تھی بات عرض کی گئی، اور بہت یادیں چھپی ہوئی ہیں جو ممکن ہے کہ کبھی اجاگر ہوں۔

      دیکھا گیا ہے کہ اچھے لوگوں کے کارنامے بہت دنوں تک تازہ ہی رہتے ہیں، جو لوگ اپنے ایام زندگی میں عوام کے دینی معاملات میں سرگرم رہتے ہیں اور ہمیشہ روشنی پھیلانے کا ہی کام کرتے ہیں وہ یقینا زندہ و جاوید رہتے ہیں، اور جن لوگوں کی کارکردگی گمراہی پھیلانے کی رہی، نیک کاموں میں بہانہ ڈھونڈنا رہا، غلط کاموں میں بڑی بے شرمی سے ظاہر اور حاضر رہے، ایسے لوگوں کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔تبھی تو مولانا روم کا شعر ہے جو درس مثنوی میں ہے:
کار مرداں روشنی و گرمی است
کار دوناں حیلہ و بے شرمی است
     ترجمہ:’’کار خیر والے جہاں جاتے ہیں روشنی پھیلاتے ہیں اور سرگرم رہتے ہیں اور بددینوں کا کام بہانہ بازی اور بے شرمی پیش کرنا ہے‘‘۔



حدیث دل
     سامعین حضرات! اب میں اپنی بات عرض کرتا ہوں، مجھے اجازت ملی تو جو صلاحیت تھی لکھ دیا، اجازت ملنے سے میرا خوف جاتا رہا، چونکہ اجازت ملی تو غلطی پر امید ہے کہ رخصت بھی ہو گی، اور میری صلاحیت میں کیا ہے، مکتب میں تیسرا درجہ پڑھ کر چھوڑنے والا انسان ہوں۔یہ تو جو کچھ بھی ہم سے ہوا یہ مطالعہ اور مرید ہو کر خانقاہ رحمانی سے جڑے رہنے کا ثمرہ ہے۔
     میری تحریر ایک عالم دین کے ہاتھوں میں دینا ایسا ہے جیسا کہ ایک ڈوبتے ہوئے سورج نے دنیا کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میرے بعد کون رہنمائی کرےگا، تو ایک ٹمٹماتے ہوئے چراغ نے کہا میں بساط بھر کوشش کروں گا۔

 


 وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ  دکان  ا پنی     بڑھا     گئے


والسلام